((( میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں )))
میز پہ کھانا لگاتے ہوئے اسکا پورا دھیان پلیٹیں سجانے میں تھا اور میری آنکھیں اسکے چہرے پہ جمی تھیں۔ میں نے آہستگی سے اسکا ہاتھ تھاما تو وہ چونک سی گئی
"میں تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں" کافی ہمت جتانے کے بعد بلآخر میرے منہ سے نکلا
وہ چپ چاپ کرسی پہ بیٹھ گئی، اسکی نگاہیں چاہے میز پہ مرکوز تھیں پر ان میں سے اٹھتا درد میں بخوبی محسوس کررہا تھا۔
ایک پل کے لیے میری زبان پہ تالہ سا لگ گیا پر جو میرے دماغ میں چل رہا تھا اسے بتانا بہت ضروری تھا۔
"میں تمہیں طلاق دینا چاہتا ہوں۔۔۔۔" میری آنکھیں جھک گئیں
میری امید کے برعکس اس نے کسی قسم کی حیرانی یا پریشانی کا اظہار نہ کیا بس نرم لہجے میں اتنا پوچھا
میں نے اسکا سوال نظرانداز کیا۔ اسے میرا یہ رویہ گراں گزرا۔ ہاتھ میں پکڑا چمچ فرش پہ پھینک کے وہ چلانے لگی اور یہ کہہ کے وہاں سے اٹھ گئی کہ
رات بھر ہم دونوں نے ای ددوسرے سے بات نہیں کی۔ وہ روتی رہی۔ میں جانتا تھا کہ اسکے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر ہماری شادی کو ہوا کیا ہے۔۔۔ میرے پاس اسے دینے کے لیے کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ اسے کیا بتاتا کہ میرے دل میں اس کی جگہ اب کسی اور نے لے لی ہے۔۔۔ اب اس کے لیے میرے پاس محبت باقی نہیں رہی۔ مجھے اس پہ ترس تو بہت آرہا تھا اور ایک پچھتاوا بھی تھا۔ پر اب میں جو فیصلہ کر چکا تھا اس پہ ڈٹے رہنا ضروری تھا۔
طلاق کے کاغذات عدالت میں جمع کرانے سے پہلے میں نے اس کی ایک کاپی اسے تھمائی جس پہ لکھا تھا کہ وہ طلاق کے بعد گھر، گاڑی اور میرے ذاتی کاروبار کے 30 فیصد کی مالکن بن سکتی ہے۔
اس نے ایک نظر کاغذات پہ دوڑائی اور اگلے ہی لمحے اسکے ٹکڑے کرکے زمین پہ پھینک دیے۔ جس عورت کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے دس سال بتائے تھے وہ ایک پل میں اجنبی ہوگئی۔ مجھے افسوس تھا کہ اس نے اپنے انمول جذبات اور قیمتی لمحے مجھ پہ ضائع کیے پر میں بھی کیا کرتا میرے دل میں کوئی اور اس حد تک گھر کر چکا تھا کہ اسے کھونے کا تصور ہی میرے لیے ناممکن تھا۔
بلآخر وہ ٹوٹ کے بکھری اور میرے سامنے ریزہ ریزہ ہوگئی۔ اسکی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا تھا۔ شائد یہی وہ چیز تھی جو اس طلاق کے بعد میں دیکھنا چاہتا تھا۔
اگلے روز پورا دن اپنی نئی محبت کے ساتھ بتا کے جب میں تھکا ہارا گھر پہنچا تو وہ میز پہ کاغذ پھیلائے کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ میں نے اس پہ کوئی دھیان نہ دیا اور جاتے ہی بستر پہ سو گیا۔ دیر رات جب میری آنکھ کھلی تو وہ تب بھی کچھ لکھ رہی تھی۔ اب بھی میں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا۔
صبح جب میں اٹھا تو اس نے طلاق کی کچھ شرائط میرے سامنے رکھ دیں۔ اسے میری دولت اور جائیداد میں سے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ وہ بس ایک مہینہ مزید میرے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ اس ایک مہینے میں ہمیں اچھے میاں بیوی کی طرح رہنا تھا۔ اس شرط کی بہت بڑی وجہ ہمارا بیٹا تھا جس کے کچھ ہی دنوں میں امتحانات ہونیوالے تھے۔ والدین کی طلاق کا اس کی تعلیم پہ برا اثر نہ پڑے اس لیے میں اس کی یہ شرط ماننے کو بالکل تیار تھا۔
اس کی دوسری اور احمقانہ شرط یہ تھی کہ میں ہرصبح اسے اپنی باہوں میں اٹھا کے گھر کے دروازے تک چھوڑنے جاؤں۔ جیسا شادی کے ابتدائی دنوں میں مَیں کرتا تھا۔ وہ جب کام پہ باہر جانے لگتی تو میں خود اسے اپنی باہوں میں اٹھا کے دروازے تک چھوڑ آتا تھا۔ حالانکہ میں اس کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن ان آخری دنوں میں اس کا دل توڑنا مناسب نہیں لگ رہا تھا اس لیے میں نے یہ شرط بھی مان لی۔
اس کی ان شرائط کے بارے میں جب میں نے اپنی نئی محبت سے ذکر کیا تو وہ ہنسی اور بولی
"وہ چاہے جو بھی کرلے ایک نہ ایک دن طلاق تو اسے ہونی ہی ہے"
میری بیوی اور میں نے اپنی طلاق کے معاملے سے متعلق کسی اور سے ذکر نہ کیا۔
شرط کے مطابق پہلے دن جب مجھے اسے اٹھا کے دروازے تک چھوڑنے جانا تھا تو وہ لمحات ہم دنوں کے لیے بے حد عجیب تھے۔ ہچکچاتے ہوئے میں نے اسے اٹھایا تو اس نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اتنے میں تالیوں کی ایک گونج ہم دونوں کے کانوں میں پڑی
"پاپا نے ممی کو اٹھایا ہوا ہے۔۔۔۔۔ ہاہاہا" ہمارا بیٹا خوشی میں جھوم رہا تھا۔
اس کے الفاظوں سے میرے دل میں ایک درد سا اٹھا اور میری بیوی کی کیفیت بھی لگ بھگ میرے جیسی تھی۔
"پلیز۔۔۔ ! اسے طلاق کے بارے میں کچھ مت بتانا" وہ آہستگی سے بولی
اسے دروازے تک چھوڑ نےکے بعد میں اپنے آفس کی طرف نکل پڑا اور وہ بس سٹاپ کی طرف چل دی۔
اگلی صبح اسے اٹھانا میرے لیے قدرے آسان تھا، اور اس کی ہچکچاہٹ میں بھی کمی تھی۔ اس نے اپنا سر میری چھاتی سے لگا لیا۔ ایک عرصے بعد اس کے جسم کی خوشبو میرے حواس سے ٹکرائی۔ میں بغور اس کا جائزہ لینے لگا۔ چہرے کی گہری جھریاں اور سر کے بالوں میں اتری چاندی اس بات کی گواہ تھیں کہ اس نے اس شادی میں بہت کچھ کھویا ہے۔
چار دن مزید گزرے، جب میں نے اسے باہوں میں بھر کے سینے سے لگایا تو ہمارے بیچ کی وہ قربت جو کہیں کھو سی گئی تھی واپس لوٹنے لگی۔ پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ قربت کے وہ جذبات بڑھتے گئے۔
لمحے دِنوں کو پَر لگا کے اڑا لے گئے اور مہینہ پورا ہوگیا۔
اس آخری صبح میں جانے کے لیے تیار ہورہا تھا اور وہ بیڈ پہ کپڑے پھیلائے اس پریشانی میں مبتلا تھی کے آج کونسا لباس پہنے۔ کیوں کہ پرانے سارے لباس اس کے نحیف جسم پہ کھلے ہونے لگے تھے۔ اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کتنی کمزور ہوگئی ہے۔ شائد اسی لیے میں اسے آسانی سے اٹھا لیتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں امڈتے درد کو دیکھ کے نہ چاہتے ہوئے بھی میں اس کے پاس چلا آیا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"پاپا۔۔۔ ! ممی کو باہر گھمانے لے جائیں۔۔۔۔ " ہمارے بیٹے کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ اس کے خیال میں اس پل یہ ضروری تھا کہ میں کسی طرح اس کی ماں کا دل بہلاؤں۔
میری بیوی بیٹے کی طرف مڑی اور اسے سینے سے لگا لیا۔ یہ لمحہ مجھے کمزور نہ کردے یہ سوچ کے میں نے اپنا رخ موڑ لیا۔
آخری بار میں نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا اس نے بھی اپنے بازو میری گردن کے گرد حائل کردیے۔ میں نے اسے مظبوطی سے تھام لیا۔ میری آنکھوں کے سامنے شادی کا وہ دن گردش کرنے لگا جب پہلی بار میں اسے ایسے ہی اٹھا کے اپنے گھر لایا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک ایسے ہی ہر روز اسے اپنے سینے سے لگا کے رکھوں گا۔ میرے قدم فرش سے شائد جم سے گئے تھے اسی لیے میں بامشکل دروازے تک پہنچا۔ اسے نیچے اتارتے ہوئے میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی
"شائد ہمارے درمیان قربت کی کمی تھی"
وہ میری آنکھوں میں دیکھنے لگی اور میں اسے وہیں چھوڑ کے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ تیز رفتاری سے میں گاڑی چلاتے ہوئے بار بار ایک خوف میرے دل میں گھر کررہا تھا کہ کہیں میں کمزور نہ پڑ جاؤں، اپنا فیصلہ بدل نہ دوں۔ میں نے اس گھر کے دروازے پہ بریک لگائی جہاں نئی منزل میرا انتظار کررہی تھی۔ دروازہ کھلا اور وہ مسکراتے ہوئے میرے سامنے آئی
"مجھے معاف کردو۔ میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا" میرے منہ سے نکلے یہ الفاظ اس کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ وہ میرے پاس آئی اور ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے بولی
"شائد تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یا پھر تم مذاق کررہے ہو"
"نہیں ۔۔۔ ! میں مذاق نہیں کررہا۔ شائد ہماری شادی شدہ زندگی بے رنگ ہوگئی ہے پر میرے دل میں اس کے لیے محبت اب بھی زندہ ہے۔ بس اتنا ہوا ہم ہر وہ چیز بھول گئے جو اس ساتھ کے لیے ضروری تھی۔ دیر سے سہی پر مجھے سب یاد آگیا ہے۔ اور ساتھ نبھانے کا وہ وعدہ بھی یاد ہے جو شادی کے پہلے دن میں نے اس سے کیا تھا"
نئے ہر بندھن کو توڑ کے بعد میں پرانے بندھن کو دوبارہ جوڑنے کے لیے واپس لوٹا۔ میرے ہاتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ تھا جس میں موجود پرچی پہ لکھا تھا
"میں ہر روز ایسے ہی تمہیں اپنی باہوں میں اٹھا کے دروازے تک چھوڑنے آؤں گا۔ صرف موت ہی مجھے ایسا کرنے سے روک سکتی ہے"
میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میرے پاس اپنے بیوی کو دینے کے لیے زندگی کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
میں جب اس سے چند لمحوں کی دوری پہ تھا تبھی زندگی کی ڈور اس کے ہاتھوں سے سرک گئی۔
کئی مہینوں تک کینسر کی بیماری سے لڑتے لڑتے وہ ہار چکی تھی۔ نہ اس نے کبھی اپنی تکلیف کا مجھ سے ذکر کیا اور نہ ہی مصروف زندگی نے مجھے اس سے پوچھنے کا موقع دیا۔ جب اسے میری سب سے زیادہ ضرورت تھی تب میں کسی اور کے دل میں اپنے لیے محبت کھوج رہا تھا۔
وہ جانتی تھی کے اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کے اس کی موت سے قبل طلاق کا اثر ہمارے بیٹے کے دل میں میرے لیے نفرت کا بیج بو دے۔ اس لیے بیتے ایک مہینے میں اس نے بیٹے کے سامنے انتہائی محبت کرنیوالے شوہر کا میرا روپ نقش کردیا۔۔۔ جو حقیقی تو نہیں تھا پر دائمی ضرور بن گیا
یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے بے رنگ رشتوں میں رنگ بھرنے کی بجائے ان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کئی بار یہ سمجھنے میں ہم دیر کر دیتے ہیں کہ نئے رشتے قائم کرنا زیادہ صحیح ہے یا پھر پرانے رشتوں میں رنگ بھرے جائیں۔۔۔۔؟
اسکا فیصلہ آپکے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ آپ وقت پہ فیصلہ نہ کر سکیں اور اس تاخیر میں ہاتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خالی رہ جائیں۔ تو دیر مت کیجئے۔
اپنی رائے ضررو دیجئے گا...
Regards,
Muhammad Shoaib TaNoLi
Whats app>Cel# 03002591223
Long Live Pakistan
Heaven on Earth
Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan.
Pakistan Zindabad!
✔Note: This is not a spam mail and is being sent to the mailing list of TaNoLi members and friends. If you would like to remove your e-mail address from our mailing list, please send an e-mail to shoaib.tanoli@gmail.com with 'remove' as the subject of the e-mail.
--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page:
http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI * Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups ---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit
https://groups.google.com/d/optout.