ان پاکستانیوں کی حالت زار کے مناظر دیکھ کر تو خود طالبان کے ساتھی اور لیڈر بھی اپنی کمین گاہوں میں ٹی وی کوریج دیکھ کر افسوس کر رہے ہوں گے کہ یہ بے گناہ شہری ہماری گولیوں کے سامنے کیوں نہیں آ گئے؟آسان موت تو مل جاتی۔
اپنے محافظوں نے جس بے رحمی سے انہیں مارا' ہم تو شاید گوارا کر لیتے لیکن جو لوگ اپنے شہریوں کی حفاظت پر مامور ہیں' ان کے ہاتھوں اتنی بے بسی کے عالم میں مرنا' تو موت کو دس گنا زیادہ دردناک بنا دیتا ہے۔
کیسا دلدوز منظر تھا؟ شہر کے حساس ترین مرکز کے ایک سٹور میں پناہ لینے کے لئے گھسے ہوئے 7 ملازمین آپریشن ختم ہو جانے کے بعد اس امید میں چلا چلا کر مدد مانگتے رہے کہ اب لڑائی ختم ہو گئی ہے اور ہمارے محافظ ڈھونڈتے ہوئے ہمارے پاس پہنچ جائیں گے۔
محافظ تو کیا پہنچتے؟ ان کے اہل خاندان عورتوں بچوں سمیت روتے بلبلاتے وہاں پہنچ کر مدد طلب کرنے لگے کہ کوئی ان کے پیاروں کو دم گھٹ کر مرنے سے بچا لے۔دہشت گردی کی واردات پر ایمرجنسی کے تمام وسائل حرکت میں آ جاتے ہیں اور ضرورت مندوں کو فوری مدد پہنچاتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں نے کیا کیا؟
دہشت گرد مارے گئے' تو اپنا اپنا سامان سمیٹ کر لڑائی کی جگہ سے رفوچکر ہو گئے۔ حالانکہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا تھا کہ وہ صبح کا سورج نکلنے تک سرچ لائٹوں کی روشنی میں دہشت گردوں کی تلاش بھی کرتے اور اپنے بے گناہ شہریوں کا پتہ بھی چلاتے کہ کون' کس حالت میں' کہاں پر چھپا ہوا ہے؟ دونوں باتیں درست نکلیں۔
5
دہشت گرد' جو لڑائی میں سے بچ کر نکل گئے تھے' قریبی
آبادی میں روپوش رہے اور اگلے دن آ کر حملہ کر کے ہمارے محافظوں کا منہ بھی چڑا گئے۔
7
بے گناہ شہری' جو سٹور میں محبوس ہو گئے تھے' انہیں
نکالنے کے لئے کوئی تالے کھولنے والا بھی نہیں آیا۔ متاثرین نے سڑک پر مظاہرہ کیا۔ ٹی وی نشریات میں رو رو کر دہائیاں دیں اور پکارا کہ کوئی آ کر ہمارے پیاروں کو بچائے۔ کسی بھی حفاظتی ادارے یا ریسکیو کرنے والے سے پہلے' بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا ٹیلیفون آیا اور ان کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارا سامان دور سے آئے گا۔ لیکن ہم پہنچ ضرور جائیں گے۔ واقعی ایسا ہوا۔ کسی بھی سرکاری ادارے کی مدد آنے سے پہلے' بحریہ ٹائون کے بلڈوزر پہنچ گئے۔ مگر تب دیر ہو چکی تھی۔ سٹور میں جانے کا راستہ نکال کر جب لوگ اندر گئے' توکہانی ختم ہو چکی تھی۔
مدد کے لئے پکارنے والے بے بسی اور بیچارگی کی حالت میں تیز آنچ کے اندر جل جل کے ٹھنڈے ہو گئے۔ مرتے' بلکتے اور سسکتے ہوئے' انہیں اپنے دانشوروں کے دعوے ضرور یاد آ رہے ہوں گے کہ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے۔
اپنے محافظوں نے جس بے رحمی سے انہیں مارا' ہم تو شاید گوارا کر لیتے لیکن جو لوگ اپنے شہریوں کی حفاظت پر مامور ہیں' ان کے ہاتھوں اتنی بے بسی کے عالم میں مرنا' تو موت کو دس گنا زیادہ دردناک بنا دیتا ہے۔
کیسا دلدوز منظر تھا؟ شہر کے حساس ترین مرکز کے ایک سٹور میں پناہ لینے کے لئے گھسے ہوئے 7 ملازمین آپریشن ختم ہو جانے کے بعد اس امید میں چلا چلا کر مدد مانگتے رہے کہ اب لڑائی ختم ہو گئی ہے اور ہمارے محافظ ڈھونڈتے ہوئے ہمارے پاس پہنچ جائیں گے۔
محافظ تو کیا پہنچتے؟ ان کے اہل خاندان عورتوں بچوں سمیت روتے بلبلاتے وہاں پہنچ کر مدد طلب کرنے لگے کہ کوئی ان کے پیاروں کو دم گھٹ کر مرنے سے بچا لے۔دہشت گردی کی واردات پر ایمرجنسی کے تمام وسائل حرکت میں آ جاتے ہیں اور ضرورت مندوں کو فوری مدد پہنچاتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں نے کیا کیا؟
دہشت گرد مارے گئے' تو اپنا اپنا سامان سمیٹ کر لڑائی کی جگہ سے رفوچکر ہو گئے۔ حالانکہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا تقاضا تھا کہ وہ صبح کا سورج نکلنے تک سرچ لائٹوں کی روشنی میں دہشت گردوں کی تلاش بھی کرتے اور اپنے بے گناہ شہریوں کا پتہ بھی چلاتے کہ کون' کس حالت میں' کہاں پر چھپا ہوا ہے؟ دونوں باتیں درست نکلیں۔
5
دہشت گرد' جو لڑائی میں سے بچ کر نکل گئے تھے' قریبی
آبادی میں روپوش رہے اور اگلے دن آ کر حملہ کر کے ہمارے محافظوں کا منہ بھی چڑا گئے۔
7
بے گناہ شہری' جو سٹور میں محبوس ہو گئے تھے' انہیں
نکالنے کے لئے کوئی تالے کھولنے والا بھی نہیں آیا۔ متاثرین نے سڑک پر مظاہرہ کیا۔ ٹی وی نشریات میں رو رو کر دہائیاں دیں اور پکارا کہ کوئی آ کر ہمارے پیاروں کو بچائے۔ کسی بھی حفاظتی ادارے یا ریسکیو کرنے والے سے پہلے' بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا ٹیلیفون آیا اور ان کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارا سامان دور سے آئے گا۔ لیکن ہم پہنچ ضرور جائیں گے۔ واقعی ایسا ہوا۔ کسی بھی سرکاری ادارے کی مدد آنے سے پہلے' بحریہ ٹائون کے بلڈوزر پہنچ گئے۔ مگر تب دیر ہو چکی تھی۔ سٹور میں جانے کا راستہ نکال کر جب لوگ اندر گئے' توکہانی ختم ہو چکی تھی۔
مدد کے لئے پکارنے والے بے بسی اور بیچارگی کی حالت میں تیز آنچ کے اندر جل جل کے ٹھنڈے ہو گئے۔ مرتے' بلکتے اور سسکتے ہوئے' انہیں اپنے دانشوروں کے دعوے ضرور یاد آ رہے ہوں گے کہ پاکستان سکیورٹی سٹیٹ ہے۔
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
Long Live Pakistan
Regards,
Muhammad Shoaib TaNoLi
Karachi Pakistan
Cell # +92-300-2591223
Facebook www.facebook.com/2mtanoli
Twitter: tanolishoaib
Skype: tanolishoaib
ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم
IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL
PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment