Sunday, September 20, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ خطبة حجة الوداع

خطبة حجة الوداع


جناب سرور کائنات` فخر موجودات` شفیع المذنبین` خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ وسلم کا ہر ایک ارشاد` ہر جملہ اور ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے- ہر ایک لفظ میں` ہر ایک جملے میں ہمارے لیے ہدایت اور راہنمائی کے بہت سے پہلو ہیں- لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہزاروں ارشادات عالیہ میں جن ارشادات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے` ان میں حجة الوداع کا خطبہ بھی شامل ہے- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری حج کیا` اسے دو حوالوں سے حجة الوداع کہتے ہیں- ایک اس حوالہ سے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج وہی کیا` اور اس حوالے سے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا : لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا- یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے` شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو- یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں اپنے صحابہ سے آخری اجتماعی ملاقات کر رہا ہوں- آپ نے بطور خاص فرمایا کہ مجھ سے باتیں پوچھ لو` سیکھ لو` جو سوال کرنا ہے` سوال کر لو` شاید اس سال کے بعد میں تم لوگوں سے اس طرح ملاقات نہ کر سکوں- گویا حضور خود بھی الوداع کہہ رہے تھے- اس مناسبت سے اس حج کو حجة الوداع کہتے ہیں-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک ہی حج کیا اور وہ حج یہی تھا- ہجرت سے پہلے جب مکہ مکرمہ میں حضور کا اپنا قیام تھا` ٥٣ سال کی عمر تک آپ حج کرتے رہے- تعداد ذکر نہیں ہے- محدثین یہ فرماتے ہیں کہ جب سے حضور نے ہوش سنبھالا` مکہ میں رہے تو ظاہر ہے کہ ہر سال حج میں شریک ہوتے رہے ہوں گے- روایات میں ذکر آتا ہے کہ حج کے موقع پر جو اجتماع ہوتا تھا` منی میں` عرفات میں` لوگ دنیا کے مختلف حصوں سے حج کے لیے آتے تھے` تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اجتماع سے فائدہ اٹھاتے تھے- آپ خیموں میں جاتے تھے` لوگوں سے ملتے تھے اور دعوت دیتے تھے- چنانچہ انصار مدینہ کے دونوں گروہوں اوس اور خزرج کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو رابطہ ہوا` وہ حج ہی کے موقع پر ہوا- ان دونوں قبائل کے لوگ حج کے لیے آئے ہوئے تھے` حضور خیموں میں جا کر دعوت دے رہے تھے تو انہوں نے آپ کی بات توجہ سے سنی اور قبولیت کا اظہار کیا-


حجة الوداع کی پیشگی تیاری


رمضان المبارک ٨ھ میں مکہ فتح ہوا- ٩ھ میں مسلمانوں نے اجتماعی طور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں پہلا حج ادا کیا- حضور اس حج میں خود تشریف نہیں لے گئے- حضرت ابوبکر صدیق کو مدینہ سے امیر حج بنا کر بھیجا اور ان کے ذریعے حج کے موقع پر کچھ اعلانات کروائے- ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا` کچھ اعلانات ان کے ذریعے کروائے اور آئندہ سال اپنے حج کے لیے تیاری کی- (بخاری` رقم ٣٥٦) اس تیاری میں دو تین باتیں اہم تھیں- مختلف عرب قبائل کے ساتھ معاہدات تھے- کچھ کو باقی رکھنے کا فیصلہ کرنا تھا اور کچھ کو ختم کرنے کا- اور ایک بات یہ تھی کہ آئندہ سال اپنے حج سے پہلے حضور مکہ کے ماحول میں کچھ صفائی چاہتے تھے- مثلاً پہلے ہر قسم کے لوگ حج کے لیے آجاتے تھے- آپ نے اعلان کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی غیر مسلم یہاں نہیں آئے گا- یہ بیت اللہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے` آج کے بعد مسلمانوں کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں آئے گا- یہ بیت اللہ ابراہیمی ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے لیے مخصوص ہے-
دوسری بات یہ کہ پہلے بہت سے لوگ حج کے لیے آتے تو ننگے طواف کرتے` مرد بھی اور عورتیں بھی- عورتوں نے معمولی سا لنگوٹی طرز کا کوئی کپڑا پہن رکھا ہوتا تھا اور کہتے تھے کہ یہ نیچر ہے کہ ہم دنیا میں بھی ننگے آئے تھے` اس لیے ہم اللہ کے دربار میں ننگے ہی پیش ہوں گے- بعض روایات (مسلم` رقم ٥٣٥٣) میں ذکر ہے کہ مرد تو تلبیہ پڑھتے تھے` لیکن عورتیں کچھ اشعار پڑھتی تھیں` مثلاً :

الیوم یبدو بعضہ أو کلہ فما بدا منہ فلا أحلہ
جن کا مطلب یہ تھا کہ ہم اللہ کے دربار میں اس کیفیت (ننگی حالت) میں پیش ہیں- ہمارا ستر سارا یا اس کا کچھ حصہ دکھائی دے گا` لیکن ہم اپنے آپ کو کسی پر حلال نہیں کرتیں کہ وہ ہماری طرف دیکھے- اس طرح کے اشعار پڑھتی ہوئی طواف کرتی تھیں- تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ آج کے بعد کوئی شخص ننگا طواف نہیں کرے گا- عورتیں تو مکمل لباس میں ہوں گی اور مرد بھی اپنا جسم مکمل طور پرڈھانپیں گے لیکن دو چادروں سے- مردوں کے لیے دو چادریں مخصوص ہوں گی جبکہ عورتیں پورے لباس میں با حیا اور با وقار طریقہ سے آکر طواف کریں گی-
یہ دو اعلان حضور نے اگلے سال کے لیے کروا دیے کہ اگلے سال کوئی غیر مسلم حج کے لیے نہیں آئے گا اور کوئی ننگا طواف نہیں کرے گا- اس کے علاوہ اور بھی متفرق اعلانات کروائے کہ آج کے بعد حج میں یہ ہوگا اور یہ نہیں ہوگا- پھر اس اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا سال مختلف قبائل میں پیغامات بھیجے کہ آئندہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں` اس لیے جو مسلمان بھی اس موقع پر پہنچ سکتا ہے` پہنچے- چنانچہ پورا سال یہ اعلانات ہوتے رہے` لوگوں تک یہ پیغام پہنچتا رہا کہ جس مسلمان نے حضور کی رفاقت حاصل کرنی ہے` معیت حاصل کرنی ہے` جس نے آپ سے کوئی بات پوچھنی ہے تو وہ حج پر پہنچے- چنانچہ پورے اہتمام کے ساتھ جزیرة العرب کے مختلف علاقوں سے لوگ حج کے لیے آئے- ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حجة الوداع کے موقع پر جمع ہوئے- یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام کا سب سے بڑا اجتماع تھا- حضور کی حیات میں اس سے بڑا صحابہ کا اجتماع نہیں ہوا- صحابہ کرام مختلف علاقوں سے آئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا-


 
حجة الوداع کے خطبات

اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں- خطبة حجة الوداع جسے کہتے ہیں` یہ حضور کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے- ان میں دو تو بڑے خطبے ہیں- ایک خطبہ حضور نے عرفات میں ارشاد فرمایا- یہی خطبہ سنت رسول کے طور پر اب بھی ٩ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے- ایک خطبہ ہے جو حضور نے منʞی میں ارشاد فرمایا- یہ دو تو باقاعدہ خطبے ہیں جبکہ امام قسطلانی رح نے ``المواہب اللدنیة`` میں حضرت امام شافعی رح کے حوالہ سے چار خطبات کا ذکر کیا ہے- صحابہ کرام رض لاکھوں کی تعداد میں تھے- انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبات سنے` جس کو جو بات یاد رہی اس نے وہ آگے نقل کر دی- اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے`حضور نے ان کے جوابات دیے- حضور نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں- صحابہ کرام کو عرفات اور منʞی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا` صحابہ کرام رض نے جو جو بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی` اس کو محدثین نے محفوظ کیا- ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے- اس میں عرفات و منʞی کے دو خطبے بھی شامل ہیں اور مختلف مواقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر عمومی خطابات بھی شامل ہیں-
یہ حجة الوداع کا خطبہ بیسیوں بلکہ اس سے بھی زیادہ سینکڑوں روایات میں نقل ہوا ہے- وہ زمانہ لکھنے پڑھنے کا زمانہ نہیں تھا` یادداشت کا زمانہ تھا- یادداشت پر لوگ اعتماد کرتے تھے- اس حجة الوداع کے خطبہ پر محدثین نے مختلف ادوار میں کام کیا ہے- حجة الوداع کی اہمیت کی بات تو یہ ہے کہ یہ حضور کی حیات مبارکہ میں صحابہ رض کا سب سے بڑا اجتماع تھا- اور پھر یہ کہ حضور نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ شاید یہ میری تمہاری آخری اجتماعی ملاقات ہو- پھر ایک بہت اہمیت والی بات یہ ہے کہ اس موقع پر ہی آیت تکمیل دین نازل ہوئی-


دین کی تکمیل کا تاریخی اعلان

بخاری شریف (رقم` ٤٢٤٠) کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رض سے ان کے دور خلافت میں ایک یہودی عالم نے کہا: یا حضرت ! آپ کے قرآن میں ایک آیت ایسی ہے` وہ آیت اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم آیت کے نازل ہونے کے دن کو عید بنا لیتے- ہم باقاعدہ ڈے مناتے اس پر کہ فلاں دن یہ آیت نازل ہوئی تھی- حضرت عمر رض نے پوچھا` کون سی آیت؟ اس نے کہا: `الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا`- (المائدہ ٣:٥) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہمیں نے دین مکمل کر دیا ہے` اپنی نعمت تمام کر دی ہے- تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے وحی کا نزول شروع ہوا تھا` اس کے بعد مختلف پیغمبروں کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے رہے` جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا- احکام آتے بھی رہے` منسوخ بھی ہوتے رہے` ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں- یہ ایک ارتقا کا اور تدریج کا عمل تھا- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ تعالیٰ نے وحی کا کام مکمل کر دیا- اب قیامت تک کوئی وحی نہیں ہوگی اور نہ احکام میں رد و بدل ہوگا اور نہ ہی کوئی نیا حکم آئے گا- تو تکمیل کا معنی یہ ہے کہ وہ وحی جو آدم علیہ السلام پر نازل ہونا شروع ہوئی تھی` وہ تدریج اور ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوئی ہے-
چنانچہ جب غلبۂ دین مکمل ہوا تو حجة الوداع اس کا سب سے بڑا مظہر تھا کہ اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی- اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اعلان فرمایا: الیوم اکملت لکم دینکم`- آج کے دن میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے- واتممت علیکم نعمتی`-اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے- ورضیت لکم الاسلام دینا`- اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں- آج کے بعد میں کسی انسان سے اسلام ہی کا دین قبول کروں گا اور کوئی دین قبول نہیں کروں گا- تو اس یہودی عالم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ یا امیر المؤمنین! یہ آیت اگر ہم پر تورات میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم آیت کے نزول والے دن کو عید بنا لیتے- حضرت عمر رض نے کہا کہ اللہ کی قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیت نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے- تم تو عید بنا لیتے` ہماری پہلے سے عید ہے- فرمایا یوم النحر کو منٰی میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اور میں اس موقع پر موجود تھا- یوم النحر یعنی عید الاضحی اور قربانی کا دن- حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں- سالانہ عید بھی تھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی` یعنی وہ جمعة المبارک کا دن تھا-
--

 

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Cell#03002591223

Karachi-Pakistan

--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment