خادمِ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم
عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے جبکہ آپؐ کے تمام صحابہ کرامؓ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے کہ اچانک دو مہمان مسجد کے اندر آگئے۔ نبیؐ نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو انہوں نے کہا کہ ہم پردیسی ہیں، باہر سے آئے ہیں۔آپؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہیں، اسلام کے مسائل پوچھنے کیلئے۔ آپؐ نے مسجد میں نگاہ مبارک دوڑائی صرف ایک صحابیؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپؐ نے بلایا اور فرمایا، اللہ کے بندے دو مہمان آ گئے ہیں۔ ایک مہمان کو میں گھر لے جاتا ہوں اور ایک کو تم اپنے گھر لے جاؤ۔ اب نبی پاکؐ کاارشاد ہے، اس نے سرور کائنات سے کچھ نہ کہا، کہنے لگا یا رسول ؐاللہ میں حاضر ہوں۔ مہمان کو ساتھ لیا اور چل نکلا اور راستے میں پریشان ہو گیا۔ غریب آدمی تھا، مفلس و کلاش، سوچا نہ جانے گھر میں اس کو کھلانے کیلئے کچھ ہوگا کہ نہیں۔ اسی پریشانی میں کے عالم میں گھر پہنچا، اپنی بیوی کو قصہ بتلایا کہ بنی ؐاللہ نے ایک مہمان میرے سپرد کیا ، ایک مہمان آپؐ خود اپنے گھر لے گئے، ایک مہمان کو میں لے کر آ گیا۔ کیا گھر میں کچھ کھانے پینے کو ہے کہ نہیں؟
خاتون بھی اللہ کی پاکباز بندی تھی، نیک عورت، اس نے پیشانی پر سلوٹ نہیں ڈالی کہ اپنے گھر تو کھانے کو کچھ نہیں اور یہ تم مہمان کو لے کر آ گئے ہو۔ خاتون بڑی خوش ہوئی، اس نے کہا، گھبرانے کی کیا بات ہے۔ گھر میں اللہ کی رحمت آئی ہے، مہمان نہیں آیا، اللہ کا کرم آیا ہے۔
گھر میں اور تو کچھ نہیں، بچوں کی روٹی پڑی ہوئی ہے، جو میں نے رات کو بچوں کو نہیں کھلائی تھی کہ رات تو جیسے تیسے گزر جائے گی۔ صبح جب بھوک سے نڈھال بچے اٹھیں گے تو ان کو روٹی کھلاؤنگی لیکن کیا ہے، بچے بھوکے رہ جائیں، اللہ کے رسولؐ کا مہمان کھانا کھا لے اس سے بڑی کیا خوش بختی کی بات ہو سکتی ہے۔
اللہ اکبر! کتنی پاک باز عورت تھی، کہنے لگی تم مہمان کو اندر بٹھاؤ میں کھانا تیار کرتی ہوں، مہمان کو پتہ نہ چلے کہ ہم غریب اور مفلس ہیں اور اس کی خدمت نہیں کر سکتے۔ مہمان کو اس نے اندر بٹھایا، وہ پاک باز عورت کھانا تیار کرنے لگی۔ یہ اللہ کا بندہ اس کو بیٹھا کر باہر آیا، کھانا دیکھا تو بہت تھوڑا، کہا بی بی، کھانا تو اتنا نہیں کہ دو آدمی کھا سکیں( عرب کا رواج یہ ہے کہ جب تلک میزبان مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھائے مہمان کھانا نہیں کھاتا)، اب کوئی ایسی تدبیر سوچو کہ مہمان بھوکا نہ جائے اگر میں نے کھانا کھایا تو مہمان بھوکا رہ جائے گا، دونوں صلاح مشورہ کرتے ہیں کہ کس طرح مہمان کو سیر ہو کر کھلایا جائے، اس نے کہا کہ جب کھانا تیار ہو جائے تو تم مجھے آواز دینا، کھانا رکھنے سے پہلے میں دیئے کی بتی کو درست کرنے کے بہانے بتی کو بجا دوں گا، اندھیرا ہو جائے گا، کھانا رکھوں گا، مہمان کے ساتھ خود بھی بیٹھ جاؤں گا۔ مہمان یہ سمجھے گا کہ میں بھی کھا رہا ہوں، میں ویسے ہی منہ ہلاتا رہوں گا۔ اس طرح مہمان سیر ہو کر کھا لے گا اور اس کی بھوک بھی مٹ جائے گی اور اس کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ میزبان نے ساتھ کھایا ہے کہ نہیں کھایا ہے۔ اللہ اکبر! کس حیلے اور بہانے کے ساتھ مہمان کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔
صبح کی آذان ہوئی، رحمت کائنات کا یہ پاک باز ساتھی نبیؐ کے مہمان کو ساتھ لے کر حضورؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ نماز فجر ادا ہوئی، سرور کائنات نے پوچھا، ساتھی مہمان کی خدمت تواضع کی ہے کہ نہیں؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا، یا رسول ؐاللہ، میں غریب آدمی ہوں، مفلس و کلاش، اپنی ہمت کے مطابق کوشش کی ہے کہ مہمان گھر سے راضی جائے، بھوکا نہ جائے ،باقی آپؐ اس سے خود پوچھ لیجئے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو یا رسولؐ اللہ اس کو کہیے کہ مجھے معاف کر دے۔
نبیؐ کی بارگاہ میں یہ گزارش کرتا ہے کہ وحی کی کیفیت طاری ہو گئی، سرور کائنات پر جب وہی اترتی تھی آپ کے پاس بیٹھے صحابہؓ کو اس کا علم ہو جاتا تھا کیونکہ سخت سردیوں کی ٹھٹھری ہوئی راتوں میں بھی آپؐ کی پیشانی اقدس پر وحی کے نزول کے وقت پسینے کے قطرے نمودار ہو جاتے تھے۔ اتنا بوجھ پڑتا تھا اور فرشتوں کی آمد سے صحابہؓ کو اسطرح کی آواز آتی تھی، جس طرح شہد کی مکھیوں کی آواز آتی ہیں۔
وحی کے نزول کا سلسلہ ختم ہوا، بنی کائنات مسکرا پڑے، صحابی پریشان ہو گیا، اللہ نے راز کو تو فاش نہ کردیا ہو۔ ہماری غربت کا پردہ نہ اٹھ گیا ہو، جھکتے جھکتے عرض کیا، اللہ کے رسولؐ اپنے مہمان سے پوچھ لیجئے کہ کوئی کوتاہی تو نہیں ہو گئی ہے۔ آپ ؐ نے اپنے پیار سے ہاتھ اٹھایا، اپنے صحابی کے کندھے پر رکھا اور فرمایا ساتھی تو نے رات کو مہمان کی کیسے خدمت کی کہ عرش والا عرش پر مسکرا پڑا ہے۔ تو نے کیا کیا کہ عرش والے نے قرآن میں تیرے حق میں آیت نازل فرما دی ہے۔
( وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ )
ارشاد ربانی ہوا ''اے میرے نبی! تیری امت میں ایسے پاک باز لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ لیتے ہیں لیکن تیرے مہمان کو بھوکا نہیں جانے دیتے''(سورۃ الحشر، آئیت ۹)۔
قرآن میں اللہ نے اس (صحابیؓ )کی قربانی کو یہ بدلہ عطا فرمایا کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں کردیا، نبی ؐپاک نے ارشاد فرمایا، تیرے ایثار اور تیری قربانی نے رب کو اتنا خوش کیا کہ رب نے تیری مداح میں قرآن پاک میں آئیت نازل کردی۔
Muhammad Shoaib Tanoli Karachi Pakistan +92-300-2591223 | shoaib.tanoli@gmail.com | www.shoaibtanoli.wordpress.com | Skype: tanolishoaib | https://www.facebook.com/2mtanoli | https://twitter.com/tanolishoaib |
I am a simple ordinary Muslim, when I do according to the Quran and Sunah,I feel happy. When the devil misguides me I repent and beg forgiveness from ALLAH the forgiver Rehman and Rahim. It's just so simple.
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.
No comments:
Post a Comment