Wednesday, January 28, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ Fwd: CNG



 




--
Regards.,
 
WAQAR SHAFI
I. T. PROFESSIONAL
KARACHI-PAKISTAN.
Email Me: waqar.shafi@gmail.com




--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Tuesday, January 27, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█


کسی سے محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ھے کہ اس کی پسند کو اپنی پسند بنا لیا جائے اور جس چیز کو وہ ناپسند کرتا ہو، اس سے بچا جائے۔ یہی اصول نبی پاک ﷺ کی محبت کے حصول کیلئے بھی لاگو ہوتا ھے۔
ہم میں سے جو شخص بھی ان ﷺ سے محبت کا دعویدار ھے، پہلے تو اپنی زندگی ان کے طریقوں کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرے، ان کی ہر پسند کو اپنا لے اور ایسی چیزوں سے بچنا شروع کردے جن سے انہوں نے منع فرمایا تھا۔
لیکن ہمارا الٹا ہی حساب ھے، ہمارے اخلاق تباہ، اعمال سیاہ، ایمان کا پتہ نہیں، نیت میں فتور، کرپشن میں نمبر ون، ہر وہ کام جس سے بچنے کا حکم دیا گیا وہ ہم سب سے پہلے کرتے ہیں اور چلے ہیں ہم نبی ﷺ کی محبت کا دم بھرنے اور اس کیلئے ہمارا انتخاب ایک دفعہ پھر اپنے ملک کی سڑکیں ہونگی اور نشانہ اپنے ہی ملک کی املاک۔
آج کے دور میں اپنے سیاہ اعمال کے ساتھ اپنے آپ کو نبی کا امتی کہنا بھی ایک طرح سے ان کی عظمت کی توہین ھے۔ کیا امتی ہمارے جیسے ہوتے ہیں؟

مہذب قومیں ریلیاں نکالتی ہیں تو ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹتا، کاروبار زندگی معطل نہیں ہوتا، املاک تباہ نہیں ہوتیں، لیکن ہمیں اللہ موقع دے۔ نبی کی محبت سے زیادہ ہمیں ایک دوسرے کی زندگیاں اجیرن کرنے میں دلچسپی ھے۔

جو جو نبی کی محبت میں ریلیاں اور مظاہرے کرنے جارھے ہیں، میرا دعوی ھے کہ اگر انہیں کہا جائے کہ اس نبی کے اخلاق کو اپنا کر کل سے اپنی زندگی ان کے طریقوں کے مطابق گزارنی شروع کردو تو وہ مجھے لبرل کہہ کر،  توہین رسالت کے خلاف احتجاج میں شامل ہوجائیں گے!!!
-- 

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: 
shoaib.tanoli@gmail.com


--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ مرحوم سعودی کنگ


مرحوم سعودی کنگ عبداللہ نے اپنے آخری چند سالوں میں امریکہ کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا۔ انہوں نے دنیا کے ظالم ترین شخص، شام کے صدر بشرالاسد کو بھی تگنی کا ناچ نچوایا تھا۔ کنگ عبداللہ پاکستان کے ساتھ بھی کافی لگاؤ رکھتے تھے۔

مرحوم خادم الحرمین شریفین تھے، خانہ کعبہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ہاتھوں سے صفائی کا اعزاز رکھتے تھے، دعا ھے کہ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت میں جگہ دے۔

مرحوم دنیا کے ساتویں بااثر ترین شخص تھے اور غالباً دنیا کے شاہی خاندانوں میں سب سے امیر بھی۔ ان کے ڈاکومنٹڈ اثاثوں کی ولیو تقریباً 25 بلین ڈالر سے زائد تھی اور وہ اثاثے جو ڈاکومنٹڈ نہیں تھے، وہ شاید 50 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہونگے۔

آج وہ سفید لٹھے کے کفن میں لپیٹ دیئے گئے اور چند فٹ چوڑی اور گہری قبر میں ہمیشہ کیلئے دفن ہوگئے۔
یہی زندگی کی حقیقت ھے۔ ساری عمر ہم دنیا جیسی حقیر شے کے پیچھے بھاگتے ہیں، اپنی دولت کو بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور آخر میں وہی ایک کفن اور اسی سائز کی قبر میں چلے جاتے ہیں جس میں فقیر اور دنیاوی لحاظ سے کمتر لوگ بھی جاتے ہیں۔
پھر اوپر جاکر فرق امیری غریبی کا نہیں بلکہ اعمال کا ہوگا۔ پھر وہاں نہ تو سفارش چلے گی اور نہ ہی چالاکی۔ پھر حساب ہوگا، پورے انصاف کے ساتھ۔ 
دعا کریں کہ اوپر ہمیں انصاف کی بجائے رحمت ملے۔ کیونکہ اگر انصاف ہوا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ رحمت مل گئی تو پھر سارے جنت میں، انشااللہ!!! 


-- 

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: 
shoaib.tanoli@gmail.com


--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Wednesday, January 21, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█

پٹرول کا بحران، 
--------------------------------------

"سپلائی اینڈ ڈیمانڈ" اکنامکس کی ایک بہت ہی بنیادی تھیوری ھے جس کے مطابق اشیا کی قیمتوں کا تعین ان کی مجموعی ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق سے کیا جاتا ھے۔ آسان الفاظ میں آپ یوں سمجھ لیں کہ جب کوئی نئی فلم سینما میں ریلیز ہوتی ھے اور اگر اس کی سٹار کاسٹ اچھی ہو یا لوگوں کو اس فلم کا انتظار ہو تو اس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ھے، پہلے شو میں لوگ بلیک میں بھی ٹکٹ لے کر دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس فلم کی ڈیمانڈ کم ہوجاتی ھے یا پھر وہ سی ڈی یا کیبل پر بھی لگ جاتی ھے جس سے سینما کی ڈیمانڈ کم ہوجاتی ھے اور پھر ٹکٹ بھی بلیک میں نہیں لینی پڑتی۔
پچھلے 6 مہینوں میں پوری دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں 60 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی ہیں۔ ایک طرف تو کچھ لوگ اس کی وجہ روس اور ایران کو معاشی نقصان پہنچانا بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ بہت سی وجوہات کے سبب امریکہ میں تیل کی ڈیمانڈ کم ہوگئی ھے اس لئے قیمتیوں بھی کم ہوگئی ہیں۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر تمام ممالک میں دیکھا گیا۔ ہر ملک نے پٹرول کی قیمتیں کم کردیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن ہم چونکہ پوری دنیا سے الٹے چلتے ہیں اس لئے ہمارے ملک میں پٹرول کی قیمتیں کم ہوتے ہیں ایک خوفناک بحران کھڑا ہوگیا اور نتیجے کے طور پر پچھلے 5 دن سے پٹرول نایاب ہوچکا ھے۔
پہلے تو حکومتی وزیروں نے پراسرار خاموشی اختیار کئے رکھی اور آج ایک حکومتی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا ھے کہ قیمتوں میں کمی کے سبب پٹرول کی ڈیمانڈ میں تین گنا اضافہ ہوگیا تھا اس لئے قلت واقع ہوگئی۔ اگلے مہینے 2 لاکھ میٹرک ٹن پٹرول "سسٹم" میں آجائے گا جس سے صورتحال ٹھیک ہوجائے گی۔
یہ محص ایک بکواس ھے اور اس کی وجہ مندرجہ ذیل ھے:

1۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں اگر 30 فیصد بھی کمی ہوئی تھی تو اس سے ڈیمانڈ میں 300 فیصد اضافہ کیسے ہوگیا؟ یعنی وزیر موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پہلے جو پاکستانی ہر روز اوسطاً 300 روپے کا پٹرول استعمال کرتا تھا، جو کہ اب اسے 210 روپے کا ملتا ھے، وہ پاکستانی اب اس کا 3 گنا یعنی 630 روپے کا پٹرول استعمال کررھا ھے۔ یہ کیسے ممکن ھے؟ کیا اس کی تنخواہ بڑھ گئی یا اس کا پرائز بانڈ نکل آیا؟

2۔ اگر قیمتوں میں کمی سے ڈیمانڈ میں اتنا بڑا اضافہ ہوتا ھے تو پھر صرف پاکستان میں ہی کیوں؟ دوسرے ممالک میں کیا لوگ پاگل ہیں جو انہوں نے پٹرول زیادہ استعمال کرنا نہیں شروع کردیا؟ اور اگر انہوں نے بھی ایسا کیا ہوتا تو پھر پٹرول کی پرائسز واپس آچکی ہوتیں کیونکہ سارے ممالک میں ڈیمانڈ بڑھنے سے سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا اصول لاگو ہوجاتا۔

3۔ اصل بحران کی وجہ کمینگی اور لالچ ھے۔ پٹرول پمپ کے مالکان نے پٹرول پرانی قیمتوں پر خریدا تھا اور اگر وہ نئے ریٹس پر بیچیں گے تو انہیں نقصان ہوگا۔ چونکہ ان کے تعلقات سیاسی جماعتوں سے ہیں، کوئی حکومتی ریگولیٹری کمیٹی انہیں کچھ نہیں کہہ رہی اور ان لوگوں نے بلیک میں پیٹرول بیچنا شروع کردیا ھے۔

4۔ اس بحران کی ایک اور وجہ امپورٹ کے سودوں میں کرپشن کے مواقع ہیں۔ حکومت اب "ہنگامی" طور پر 2 لاکھ میٹرک ٹن پٹرول خریدنے جارہی ھے۔ سودا آج کی یا پچھلے ہفتے کی تاریخ میں ڈالا جائے گا جب پٹرول کی قیمت انٹرنیشنل مارکیٹ میں زیادہ تھی۔ اصل ٹرانزیکشن آج سے ہفتے بعد والی تاریخ میں ہوگی جب پٹرول چند ڈالر مزید نیچے آچکا ہوگا۔
نہیں سمجھ آئی؟ آسان الفاظ میں آپ کو بتادیتا ہوں۔
2 لاکھ میٹرک ٹن تقریباً 9 ملین بیرل ہوتا ھے۔ اگر حکومت 5 ڈالر بھی ایک بیرل کے پیچھے کمیشن کمائے تو 45 ملین ڈالر بنتے ہیں یعنی ساڑھے 4 ارب روپیہ۔ اگر 20 بندے بھی اس ڈیل میں شامل ہوجائیں تو ہر ایک کے حصے کروڑوں آتے ہیں۔

پھر اس صورتحال میں اگر سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے عوام لائنوں میں لگ کر پٹرول لینے کیلئے دھکے کھا رھے ہیں تو کس کافر کو پرواہ ہوگی!!!!

-- 

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: 
shoaib.tanoli@gmail.com


--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Tuesday, January 20, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ Fwd: Ya zinda quom ha



 




--
Regards.,
 
WAQAR SHAFI
I. T. PROFESSIONAL
KARACHI-PAKISTAN.
Email Me: waqar.shafi@gmail.com




--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Monday, January 19, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ ابھی انگلیاں ٹائپ کر سکتی ہیں۔

ابھی انگلیاں ٹائپ کر سکتی ہیں۔
ابھی آنکھیں لفظوں کو پڑھ سکتی ہیں۔
ابھی سانسوں کی مالا سلامت ہے۔ 
میں لکھتا ہوں
آپ پڑھتے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں 
میں پڑھتا ہوں۔
جب تک لکھنے اور پڑھنے کی مہلت باقی ہے
لکھا جاتا رہے گا
پڑھا جاتا رہے گا
پھر ایک وقت آتا ہے جب
یک لخت
ٹوئٹر اکائونٹ
اور فیس بک پروفائل خاموش ہو جاتی ہے۔
پھر اسٹیٹس اپ ڈیٹ نہیں ہوتا۔
صور اسرافیل تک خاموشی۔
مکمل خاموشی
ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دو
لکھ لینے دو
پڑھ لینے دو
بہت سی پروفائلیں اب خاموش ہیں۔
کیا پاسورڈ تھا۔ نہیں معلوم
کیا راز تھے، نہیں معلوم۔
بس خاموشی۔
گہری خاموشی
پراسرار چپ
ہر روز بہت سی پروفائلز خاموش ہو رہی ہیں۔
ہرروز ٹوئٹر اکائونٹ چلانے والے دنیا سے مکمل طور پر
غیر فعال ہو رہے ہیں۔
اس دنیا سے کسی اور دنیا میں ٹرانسفر ہو کر جانے والے
اب اسٹیٹس اپ ڈیٹ نہیں کر سکتے۔
جو کرنا تھا۔ کر لیا۔
اب بس حساب کتاب۔
اب بس، میزان
میری انگلیوں میں ابھی زندگی لفظ بن کر رقص کر رہی ہے۔
میری آنکھوں میں ابھی حیات کا نور عقل و بصیرت کے چراغ روشن کر سکتا ہے۔
ابھی میں لکھ سکتا ہوں
ابھی آپ پڑھ سکتے ہیں
ابھی آپ لکھ سکتے ہیں۔
ابھی میں پڑھ سکتا ہوں
تو کیوں نہ کچھ ایسا لکھا جائے
جسے پڑھا جاتا رہے۔
اس وقت بھی جب لکھنے والے کی پروفائل خاموش ہو گی۔
ایک وقت آئے گا
میری پروفائل بھی خاموش ہو جائے گی۔
فیس بک فیڈ میں میرے نام کی کوئی پوسٹ نہیں ہو گی۔
میری جگہ کسی اور کی پوسٹیں ہوں گی۔
میں بھی تو کسی اور کی جگہ پر بیٹھا ہوں۔
اپنی اپنی باری پر
سب اسی بس میں سوار ہوتے ہیں
جسے ہم دنیا کہتے ہیں۔
پھر اسٹاپ آتا ہے
سواریاں اترجاتی ہیں
کچھ اور بس پر چڑھ جاتی ہیں۔
کسی روز آپ کو میرے لکھے ہوئے لفظ دکھائی نہیں دیں گے۔
کبھی کبھار کوئی پرانی پوسٹ
کوئی پرانی بات
آپ کی نظروں سے گزرے گی۔
آپ مسکرائیں گے۔
اس وقت میرا سفر کسی اور دنیا کی شاہراہوں پر جاری ہو گا۔
ہم سب حالت سفر میں ہیں۔
ملا بن کر
صوفی بن کر
جاہل بن کر
عالم بن کر
سفر جاری و ساری ہے۔
جب تک زندہ ہیں۔ لکھتے رہیں۔ پڑھتے رہیں۔
کیسا لکھا
کیسا پڑھا
یہ میزان میں درج ہو رہا ہے
لفظ بہ لفظ
حرف بہ حرف
نیت کیا تھی
خلوص کا معیار کیا تھا
سب درج ہو رہا ہے۔
ابھی زندہ ہوں
ابھی آپ زندہ ہیں
اور جب تک ایسا ہے۔
ایسا لکھیں جس لکھ کر شرمندگی نہ ہو
وہ پڑھیں جس پڑھ کر ندامت نہ ہو
ورنہ بہت سی پروفائلز ایسی ہیں جو اب خاموش تو ہیں لیکن پروفائلوں والے سوچتے ہوں گے کہ اے کاش مہلت ملے اور اچھا اچھا لکھ آئیں، شیئر کر آئیں۔
جواب ملے گا۔۔۔
بس، اب مہلت ختم۔
جو لکھ دیا، سو لکھ دیا
جو پڑھ لیا، سو پڑھ لیا
اب بس میزان۔
حساب کتاب .......

یا رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
واسطہ تہجد کی مبارک ساعتوں کا
کسی ایک اصلاحی پوسٹ کو
کسی ایک لفظ کو
جو لکھا گیا
جو پڑھا گیا
ایسی قبولیت دے دے
کہ لکھنے والے
اور پڑھنے والے
روحانی دنیا کی جنت نظیر فضائوں میں بھی
فیس بک فرینڈز کی طرح
ساتھ ساتھ ہوں
یا رب رحمان
یا رب رحیم
یا رب کریم
یا حی یا قیوم
برحمتک استغیث
آمین يارب العرش العظيم


--

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: shoaib.tanoli@gmail.com

--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Sunday, January 4, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ Fwd: BMU-Postgraduate Admission-2015

--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم


حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (570ء (54 ق‌ھ) یا 571ء (53
 ق‌ھ) تا 632ء (10ھ)) دنیاوی تاریخ میں اہم ترین شخصیت کے طور پرنمودار ہوئے اور انکی یہ خصوصیت عالمی طور (مسلمانوں اور غیرمسلموں دونوں جانب) مصدقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاءاکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جنکو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلیۓ دنیا میں بھیجا۔ انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ [2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ انکا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبدمناف کے والد کا انتقال انکی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب انکی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہرضی اللہ عنہا بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت اللعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القابات سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ سلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام انسان کو پہنچایا وہ یہ ہے





اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 
2
--


یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتداء کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیۓ خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے لوگ ان کی امت میں شامل ہیں۔


 

ولادت با سعادت

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'[3][4]۔
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے[5] ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے



  • خاندانِ مبارک



آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت ، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔ یہ شجرہ یوں ہے۔
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں : محمد بن عبدالله بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان )


Image

بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔[6] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد 
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔




شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں[9]۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کے پہلے خاوند سے تھیں۔




بعثت (پہلی وحی)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہرضی اللہ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علیرضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ، اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔




مخالفت

جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔

619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔



معراج

مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔[




ہجرت

622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

    ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔




میثاقِ مدینہ



میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ 





جنگیں

مزید تفصیل کے لیے ہر جنگ کے نام پر رابطہ بنا ہوا ہے۔
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

    غزوہ بدر : 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔


    غزوہ احد :7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔


    غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔


    غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔


    غزوہ بنی مصطلق: شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔


    غزوہ خیبر: محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔


    جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔


    غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔


    غزوہ حنین: شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔


    غزوہ تبوک: رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے




صلح حدیبیہ

مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبية ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔




حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو روانہ کیا جب سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔


فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد جبکہ ان کے مخالف بنو بکر مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔

قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔

630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔





حجۃ الوداع


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ھزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔




ازواج مطہرات اور اولاد

 

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

    حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ علیہا السلام سے ہوئی۔ ان سے ان کی بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام پیدا ہوئیں جس پر سب مؤرخین کا اتفاق ہے۔ تین اور بیٹیوں کے بارے میں کچھ مؤرخین کے خیال میں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی بیٹیاں تھیں، کچھ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ حضرت خدیجہ علیہ السلام کی پہلے شوھر سے بیٹیاں تھیں اور کچھ یہ بھی لکھتے ہیں کہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہ السلام کی بہن ھالہ کی بیٹیاں تھیں جو حضرت خدیجہ علیہ السلام کے زیرِ پرورش تھیں کیونکہ ان کی والدہ ھالہ کا انتقال ہو چکا تھا۔
    حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔
    حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا : ان کے پہلے شوھر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کر لی۔
    حضرت ام سلمہ ھند رضی اللہ عنہا : آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوھر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
    حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا : ان کا شوھر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔
    حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا : یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔
    حضرت میمونہ بنت الحارث الہلالیہ رضی اللہ عنہا : انہوں نے اپنے شوھر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبول کیا۔
    حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔
    حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا : آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوھر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے شادی کی۔
    حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔
    حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا: ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تین بیٹے قاسم ، عبداللہ الطاھر اور ابراہیم پیدا ہوئے مگر تینوں کم عمری میں انتقال کر گئے۔
    حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا: بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔


Image


مشہور صحابہ

    حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
    حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
    حضرت علی کرم اللہ وجہہ
    حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
    حضرت بلال رضی اللہ عنہ
    حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ
    حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
    حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ
    حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
    حضرت عبداللہ بن جعفرالطیار رضی اللہ عنہ
    حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ
    حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ
    حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ
    حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

Image

غیر مسلم مشاہیر کے خیالات

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔[22] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ "میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا ۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں "۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے " محمد دراصل سروراعظم تھے ۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں ۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا "۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے " موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں "۔ گاندھی لکھتا ہے کہ " بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی ۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا "۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار "گوئٹے " حضور کا مداح اور عاشق تھا ۔اپنی تخلیق "دیوانِ مغربی"میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب "تاریخِ ترکی" میں انسانی عظمت کے لئے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے " اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (۱) ۔ مقصد کی بلندی ، (۲) ۔ وسائل کی کمی، (۳)۔حیرت انگیر نتائج ۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے "۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے " فلسفی ، مبلغ ، پیغمبر ، قانون سا ز ، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح ، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا ، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا ۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا....وہ محمد ہیں ....جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے "۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں " محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے"۔

Image




میرے کارواں میں شامل کوئی کم ظرف نہیں ہے
جو نہ مٹ سکے وطن پر وہ میرا ہمسفر نہیں ہے


Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: 
shoaib.tanoli@gmail.com


--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

Thursday, January 1, 2015

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ Fwd: FW: Twenty-Fifteen




 

 

 

 


 

 

 

 

 

 





--
Regards.,
 
WAQAR SHAFI
I. T. PROFESSIONAL
KARACHI-PAKISTAN.
Email Me: waqar.shafi@gmail.com




--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.