Monday, November 3, 2014

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ سانحہ کربلا .....6



سانحہ کربلا میں عمر بن سعد کا کردار کیا تھا؟
عمر بن سعد کے بارے میں طبری وغیرہ میں جتنی روایات بیان ہوئی ہیں، وہ ابو مخنف کے توسط سے ہوئی ہیں، اس وجہ سے ان کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان روایات سے عمر بن سعد کی دو متضاد تصویریں سامنے آتی ہیں۔ ایک تصویر یہ ہے کہ انہوں نے "رے" کی گورنری کے لالچ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف کاروائی کی اور دوسری تصویر یہ نظر آتی ہے کہ وہ حضرت حسین کے ساتھ مخلص تھے۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مطالبات کو بھی مان لیا تھا اور جب آپ شہید ہوئے تو اتنا روئے تھے کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی تھی۔ اب ان کے دل میں کیا تھا، ہمیں اس معاملے کو اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جو شخص بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار ہو گا ، وہ اللہ تعالی کے ہاں سزا پائے گا۔ روایات کی بنیاد پر ہمیں کسی کے بارے میں رائے قائم نہیں کرنی چاہیے

سانحہ کربلا میں ابن زیاد کا کردار کیا تھا؟
ابن زیاد کے بارے میں روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی نے اپنی افواج کو سختی سے نمٹنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جب تین آپشنز پیش کیں تو یہ اس پر اڑ گیا تھا کہ آپ پہلے اس کے پاس آ کر اس کے ہاتھ پر بیعت کریں۔ سانحہ کے بعد جب حضرت حسین کے اہل و عیال کو اس کے پاس لے جایا گیا تو اس نے کسی افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ ہی اپنی افواج سے اس پر پوچھ گچھ کی تھی کہ واقعہ کیوں اور کیسے ہوا؟ نہ ہی اس نے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی کی۔ اس کے بارے میں اس سے کوئی مختلف بات روایات میں درج نہیں ہے۔ طبری کی بعض روایات میں یہ ہے کہ ابن زیا دکی والدہ مرجانہ ایک نیک خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو بہت لعن طعن کی تھی۔ باقی حقیقت کا علم اللہ تعالی کو ہے کیونکہ ہمارے پاس سوائے ان روایات کے اور کچھ نہیں ہے۔
سانحہ کربلا میں یزید کا کردار کیا تھا؟
سانحہ کربلا میں یزید کے کردار کے بارے میں دو متضاد تھیوریز پیش کی جاتی ہیں اور دونوں کی بنیاد یہی تاریخی روایتیں ہیں: ایک تھیوری تو یہ ہے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوج کشی کی اور یزید نے آپ کی شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ تمام کی تمام روایات ابو مخنف نے بیان کی ہیں۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ابن زیاد نے اپنی طرف سے سختی کی۔ پھر باغی تحریک کے جو لوگ فوج میں شامل تھے، ان کے اقدام کے نتیجے میں یہ حادثہ رونما ہوا۔ یزید کو اس کی جب اطلاع ملی تو اس نے افسوس کا اظہار کیا تاہم اس نے ان قاتلین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
تاریخ طبری میں ابو مخنف ہی کی بیان کردہ بعض روایات موجود ہیں، جن سے اس دوسری تھیوری کی تائید ہوتی ہے۔ ابو مخنف کے بیان کے مطابق ابن زیاد نے جب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے قتل کی خبر یزید کو بھیجی تو یزید نے کوفہ کی بغاوت پر قابو پا لینے پر ابن زیاد کی تعریف کی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق لکھا:
قال أبو مخنف: عن أبي جناب يحيى بن أبي حية الكلبي: ۔۔۔۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ حسین بن علی عراق کی جانب روانہ ہوئے ہیں۔ سرحدی چوکیوں پر نگران مقرر کر دیجیے۔ جن کے بارے میں شک ہو، انہیں حراست میں لے لیجیے اور جس پر کوئی الزام ہو، اسے گرفتار کر لیجیے۔ لیکن جو خود آپ لوگوں سے جنگ نہ کرے، اس سے آپ بھی جنگ نہ کیجیے۔ جو بھی واقعہ پیش آئے، اس کی مجھے اطلاع دیجیے۔ والسلام۔
( ایضاً ۔ 4/1-173)
سانحہ کربلا کے بعد یزید اور اس کے اہل خاندان کا طرز عمل ابو مخنف نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پوتی سیدہ فاطمہ رحمہا اللہ کے حوالے سے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
قال أبو مخنف، عن الحارث بن كعب، عن فاطمة بنت علي: یزید نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے کہا: "نعمان! ان لوگوں کی روانگی کا سامان، جیسا مناسب ہو ، کر دیجیے۔ اور ان کے ساتھ اہل شام میں سے کسی ایسے شخص کو بھیجیے جو امانت دار اور نیک کردار ہو۔ اس کے ساتھ کچھ سوار اور خدمت گار بھیج دیجیے کہ ان سب کو مدینہ پہنچا دے۔ اس کے بعد اس نے خواتین کے لیے حکم دیا کہ انہیں علیحدہ مکان میں ٹھہرایا جائے اور اس میں ضرورت کی سب چیزیں موجود ہوں۔ ان کے بھائی علی بن حسین (رحمہ اللہ ) اسی مکان میں رہیں جس میں وہ سب لوگ ابھی تک رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ سب لوگ (خواتین) اس گھر سے یزید کے گھر میں گئیں تو آل معاویہ میں سے کوئی خاتون ایسی نہ تھی جو حسین (رضی اللہ عنہ) کے لیے روتی اور نوحہ کرتی ہوئی ان کے پاس نہ آئی ہو۔ غرض سب نے وہاں پر سوگ منایا۔
یزید صبح و شام کھانے کے وقت علی بن حسین کو بھی بلا لیا کرتا تھا۔ ۔۔۔ جب ان لوگوں نے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو یزید نے علی بن حسین کو بلا بھیجا اور ان سے کہا: "اللہ مرجانہ کے بیٹے (ابن زیاد) پر لعنت کرے۔ واللہ اگر حسین میرے پاس آتے، تو مجھ سے جو مطالبہ کرتے، میں وہی کرتا۔ ان کو ہلاک ہونے سے جس طرح ممکن ہوتا بچا لیتا خواہ اس کے لیے میری اولاد میں سے کوئی مارا جاتا۔ لیکن اللہ کو یہی منظور تھا، جو آپ نے دیکھا۔ آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو، مجھے بتائیے اور میرے پاس لکھ کر بھیج دیجیے۔ پھر یزید نے سب کو کپڑے دیے اور اس قافلے (کے لیڈروں) کو ان لوگوں کے بارے میں خاص تاکید کی۔
( ایضاً ۔ 4/1-237)
بلاذری نے اس ضمن میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےبھائی محمد بن علی رحمہ اللہ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے:
حدثني أبو مسعود الكوفي عن عوانة قال: یزید نے ابن حنفیہ کو ملاقات کے لیے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر ان سے کہا: "حسین کی شہادت پر اللہ مجھے اور آپ کو بدلہ دے۔ واللہ! حسین کا نقصان جتنا بھاری آپ کے لیے ہے، اتنا ہی میرے لیے بھی ہے۔ ان کی شہادت سے جتنی اذیت آپ کو ہوئی ہے، اتنی ہی کو بھی ہوئی ہے۔ اگر ان کا معاملہ میرے سپرد ہوتا اور میں دیکھتا کہ ان کی موت کو اپنی انگلیاں کاٹ کر اور اپنی آنکھیں دے کر بھی ٹال سکتا ہوں تو بلا مبالغہ دونوں ہی ان کے لیے قربان کر دیتا، اگرچہ انہوں نے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی اور خونی رشتہ کو ٹھکرایا تھا
(یعنی اہل عراق کی دعوت پر وہاں چلے گئے تھے۔)
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم عوام کے سامنے حسین (کے اقدام) پر تنقید کرتے ہیں لیکن واللہ یہ اس لیے نہیں کہ عوام میں حضرت علی کے خاندان کو عزت و حرمت حاصل نہ ہو بلکہ ہم لوگوں کو اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومت و خلافت میں ہم کسی حریف کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ "
یہ سن کر ابن حنفیہ نے کہا: "اللہ آپ کا بھلا کرے اور حسین پر رحم فرمائے اور ان کی خطاؤں کو معاف کرے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے نقصان کو اپنا نقصان اور ہماری محرومی کو اپنی محرومی سمجھتے ہیں۔ حسین اس بات کے ہرگز مستحق نہیں ہیں کہ آپ ان پر تنقید کریں یا ان کی مذمت کریں۔ امیر المومنین! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ حسین کے بارے میں ایسی بات نہ کہیے جو مجھے ناگوار گزرے۔" یزید نے جواب دیا: "میرے چچا زاد بھائی! میں حسین کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہوں گا جس سے آپ کا دل دکھے۔ "
اس کے بعد یزید نے ان سے ان کے قرض کے بارے میں پوچھا۔ محمد بن علی نے فرمایا: ''مجھ پر کوئی قرض نہیں ہے۔'' یزید نے اپنے بیٹے خالد بن یزید سے کہا: ''میرے بیٹے! آپ کے چچا کم ظرفی، ملامت اور جھوٹ سے بہت دور ہیں۔ اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کہہ دیتا کہ مجھ پر فلاں فلاں کا قرض ہے۔'' پھر یزید نے حکم جاری کیا کہ انہیں تین لاکھ درہم دیے جائیں جو انہوں نے قبول کر لیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں پانچ لاکھ درہم کیش اور ایک لاکھ کا سامان دیا۔
یزید ابن حنفیہ کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان سے فقہ اور قرآن سے متعلق سوالات کرتا تھا۔ جب انہیں الوداع کرنے کا وقت آیا تو اس نے ان سے کہا: ''ابو القاسم! اگر آپ نے میرے اخلاق میں کوئی برائی دیکھی ہو تو بتائیے، میں اسے دور کر دوں گا۔ اور آپ جس چیز کی طرف اشارہ کریں گے، اسے درست کر دوں گا۔'' ابن حنفیہ نے فرمایا: ''واللہ! میں نے اپنی وسعت کے مطابق کوئی ایسی برائی نہیں دیکھی جس سے آپ نے لوگوں کو روکا نہ ہو او راس معاملے میں اللہ کے حق کے بارے میں بتایا نہ ہو۔ یہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے حق بات کو واضح کریں اور اسے نہ چھپائیں۔ میں نے آپ میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔''( بلاذری۔ انساب الاشراف ۔ 3/470۔ باب: محمد بن حنفیہ)
ابو مخنف سے روایا ت کا جو دوسرا گروپ مروی ہے، ان کے مطابق شہادت حسین پر یزید خوش ہوا اور اس میں اس کی رضا شامل تھی۔ اس کے برعکس انہی ابو مخنف کی اوپر بیان کردہ روایات سے اس کے برعکس تصویر سامنے آتی ہے کہ یزید کو سانحہ کربلا کا شدید افسوس ہوا اور وہ اس نے اس سانحے پر غم کا ظہار کیا۔ اب یہ شخص کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ابو مخنف کی روایات میں سے کن روایات کو قبول کرتا ہے۔ اتنی صدیوں بعد کسی کا دل چیر کر نہیں دیکھا جا سکتا ہےکہ اس کے دل میں کیا ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یزید اس سانحہ میں ملوث نہیں تھا تو اس نے ابن زیاد اور سانحہ کربلا کے دیگر ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک تحقیقاتی ٹیم بناتا جس میں ایسے دیانت دار لوگ ہوتے جن پر امت کو کامل اعتماد ہوتا۔ یہ لوگ سانحہ کربلا کی تحقیقات کرتے اور جو لوگ اس میں ملوث تھے، انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا کتب تاریخ کے صفحات میں کوئی جواب نہیں ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ یزید کی ایسی بھیانک غلطی تھی جس کے نتیجے میں اس کا نہ تو اقتدار قائم رہ سکا اور اس کے مخالفین نے اس کے اس اقدام کو بنیاد بنا کر اس پر لعن طعن کا وہ سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔خود یزید کو سانحہ کربلا کی وجہ سے سخت نقصان ہوا۔ اس کی اب تک جو رہی سہی ساکھ تھی، وہ بالکل ہی ختم ہو گئی اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگے۔ طبری ہی کی ایک روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یزید کو اس نقصان کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ ابن زیاد سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔
قال أبو جعفر: وحدثني أبو عبيدة معمر بن المثنى أن يونس بن حبيب الجرمي حدثه، قال: تھوڑے ہی دن بعد وہ (یزید) پشیمان ہوا اور اکثر کہا کرتا تھا: "اگر میں ذرا تکلیف گوارا کرتا اور حسین کو اپنے ہی گھر میں رکھتا، جو وہ چاہتے، انہیں اس کا اختیار دے دیتا۔ اس لیے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی تھی اور ان کے حق اور قرابت کی رعایت تھی۔ اگر میری حکومت کی اس میں سبکی بھی ہو جاتی تو اس میں کیا حرج تھا۔ اللہ ابن مرجانہ (ابن زیاد) پر لعنت کرے کہ اس نے انہیں لڑنے پر مجبور کیا۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ مجھے واپس چلا جانے دو یا (مجھے یزید کے پاس بھیج دو) تاکہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں یا مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف مجھے نکل جانے دو۔ وہاں اللہ عزوجل میری حفاظت کرے گا۔ یہ بات بھی اس نے نہ مانی اور اس سے بھی انکار کر دیا۔ ان کو کوفہ کی طرف واپس لایا اور قتل کر دیا۔ اس واقعہ سے اس نے مسلمانوں کے دلوں میں میرا بغض بھر دیا اور میری عداوت کا بیج بویا۔ اب نیک ہوں یا بد، سب مجھ سے اس بات پر بغض رکھتے ہیں کہ میں نے حسین کو قتل کیا۔ لوگ اسے بہت بڑا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مجھے ابن مرجانہ سے کیا غرض ہے؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور اس پر اپنا غضب نازل کرے۔
( طبری۔ 4/1-270)
اسی روایت کے کچھ بعد بیان ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد ابن زیاد نے ایک خطبہ دیا اور اس کی مذمت بھی کی۔ وہ جانتا تھا کہ یزید اس کے ساتھ بہت برا پیش آنے والا ہے اور اس وجہ سے اس سے خائف تھا۔ ممکن ہے کہ یزید اگر کچھ عرصہ اور زندہ رہتا تو ابن زیاد کے خلاف کاروائی بھی کر ڈالتا لیکن بہرحال اب بہت دیر ہو چکی تھی اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا جو نقصان اسے پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا۔
سانحہ کربلا میں باغی تحریک کا کردار کیا تھا؟
سانحہ کربلا میں کوفہ کی باغی تحریک کا کردار نمایاں ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور خطوط کا تانتا باندھ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کو بغاوت پر اکسایا اور پھر عین محاصرے کی حالت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو براہ راست شہید کرنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جو باغی تحریک سے متعلق تھے۔ ان میں شمر بن ذی الجوشن کا نام نمایاں ہے جو جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا۔ حضرت حسین نے اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے جو دعا فرمائی، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو شہید کرنے والے یہی لوگ تھے۔ "اے اللہ! ہمارا اور ان لوگوں کا تو انصاف فرما۔ انہوں نے ہمںب اس لےد بلایا کہ ہماری مدد کریں گے اور اب ہم لوگوں کو قتل کر رہے ہں ۔"
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نتائج پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس شہادت سے یزید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا البتہ باغی تحریک کی پانچوں انگلیاں گھی میں آ گئیں۔ انہوں نے حضرت حسین کے نام کو خوب کیش کروایا اور چار سال کی تیاری کر کے آپ کے نام پر ایک زبردست بغاوت اٹھائی۔ جیسا کہ ہم باغی تحریکوں کے لائف سائیکل میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ لوگ "شہیدوں" کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ ان کا نام استعمال کر کر کے لوگوں کے جذبات بھڑکا سکیں۔ اور پھر اگر شہید حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے درجے کا شخص ہو تو کیا کہنے۔ یہی وجہ ہے کہ باغیوں نے پہلے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس آنے کی ترغیب دی، پھر جب آپ کوفہ کی طرف تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو آپ کے نام کو خوب استعمال کر کے اگلی نسلوں کے جذبات بھڑکائے اور پے در پے بغاوتیں اٹھائیں۔ تاہم اللہ تعالی نے ان کے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا اور ان کی کوئی بغاوت بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد یہی معاملہ اس باغی تحریک نے آپ کے پوتے جناب زید بن علی رحمہما اللہ اور ان کے کزن نفس الزکیہ علیہ الرحمۃ کے ساتھ کیا۔
--

Regards,

Muhammad Shoaib TaNoLi

Karachi Pakistan

Cell #               +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/2mtanoli

Skype:    tanolishoaib

Long Live Pakistan

Heaven on Earth

Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan. 
Pakistan Zindabad!

 

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم

IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE 

E Mail: 
shoaib.tanoli@gmail.com


--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment