Wednesday, July 11, 2012

█▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ آصف علی زرداری



آصف علی زرداری


آصف علی زرداری
موجودہ صدر پاکستان۔آصف علی زرداری ایک سندھی سیاستداں اور ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شامل حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔ حاکم علی زرداری بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔آصف زرداری جولائی انیس سو چھپن میں پیدا ہوئے۔انکے والد کا اندرونِ سندھ زمینداری کے ساتھ کراچی میں بھی کاروبار اور سینما گھر تھا۔

بچپن اور تعلیم

آصف علی زرداری حرامي کی ابتدائی تعلیم بھی ایل کے اڈوانی، محمد خان جونیجو، شوکت عزیز اور پرویز مشرف کی طرح سینٹ پیٹرکس سکول کراچی میں ہوئی جس کے بعد انہوں نے دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے انیس سو چوہتر میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی کسی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا۔ آصف زرداری اوائل عمر سے ہی یاروں کے یار ٹائپ شخص کے طور پر کراچی کے متمول حلقوں میں جانے جاتے تھے۔انیس سو اڑسٹھ میں شوقین مزاج کمسن آصف نے فلمساز سجاد کی اردو فلم 'منزل دور نہیں' میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔ فلم کے ہیرو حنیف اور ہیروئن صوفیہ تھیں۔لیکن یہ ایک فلاپ فلم ثابت ہوئی۔

سیاست

سیاست سے آصف زرداری کا سن اسی کے وسط تک دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ بس ایک سراغ یہ ملتا ہے کہ انیس سو پچاسی کے غیرجماعتی انتخابات میں آصف زرداری حرامي نے بھی نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے۔ اسی زمانے میں آصف زرداری حرامي نے وزیرِ اعلٰی غوث علی شاہ کے ایک وزیر سئید کوڑل شاہ کے مشورے سے کنسٹرکشن کے کاروبار میں بھی ہاتھ ڈالا لیکن اس شعبے میں آصف زرداری حرامي صرف دو ڈھائی برس ہی متحرک رہے

بینظیر سے شادی

انیس سو ستاسی آصف زرداری کے لئے سب سے فیصلہ کن سال تھا جب انکی سوتیلی والدہ ٹمی بخاری اور بیگم نصرت بھٹو نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف کا رشتہ طے کیا۔اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو ہونے والی یہ شادی کراچی کی یادگار تقاریب میں شمار ہوتی ہے۔ جس کا استقبالیہ امیر ترین علاقے کلفٹن کے ساتھ ساتھ غریب ترین علاقے لیاری کے ککری گراؤنڈ میں بھی منعقد ہوا اور امرا کے شانہ بشانہ ہزاروں عام لوگوں نے بھی شرکت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو اور انکے لاکھوں سیاسی پرستاروں کے لیے یہ پہلی بڑی خوشی تھی

وزارت

انیس سو اٹھاسی میں جب بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو آصف زرداری بھی وزیرِ اعظم ہاؤس میں منتقل ہوگئے۔اور انکی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگئی۔انیس سو نوے میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ رکنِ قومی اسمبلی بنے۔انیس سو ترانوے میں وہ نگراں وزیرِ اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے پھر بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں رکنِ قومی اسمبلی اور وزیرِ ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ وہ انیس سو ستانوے سے ننانوے تک سینٹ کے رکن رہے۔

ہنگامہ خیز سال


انیس سو نوے سے دوہزار چار تک کے چودہ برس آصف زرداری کی زندگی کے سب سے ہنگامہ خیز سال ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان پر کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئے اور ان پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب چپکانے کی کوشش کی گئی۔ سب سے پہلےانیس سو نوے میں انہیں صدر غلام اسحاق خان کے دور میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ لیکن انہی غلام اسحاق خان نے بعد میں آصف زرداری کو رہا کردیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔

مقدمات

پانچ نومبر انیس سو چھیانوے کو دوسری بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد آصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں آیا۔ نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں ان پر سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور سپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد کیسز بنائے گئے۔ اس طرح کی فہرستیں بھی جاری ہوئیں کہ آصف علی زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلجئم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز آثاثے حاصل کیے۔

جیل

غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرونِ ملک ان الزامات ، ریفرینسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی ۔آصف زرداری تقریباًً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہے۔ جیل میں بھی آصف زرداری مرکزِ توجہ رہے۔ کیونکہ انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کئے، جن میں کھانے اور کپڑوں کی تقسیم اور نادار قیدیوں کی ضمانت کے لیے رقم کا بندوبست بھی شامل رہا۔ دورانِ قید ان پر جسمانی تشدد بھی ہوا۔ لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

صدر پاکستان


جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکہ ، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا۔ اسکے بعد سے انکے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی یا تو ثابت نہیں ہوسکا یا واپس لے لیا گیا یا حکومت مزید پیروی سے دستبردار ہوگئی۔اس سلسلے میں اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈینننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے اور مسٹر سونیا گاندھی بن کے رہیں گے۔لیکن پھر انہوں نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کرلیا۔اگست 2008ء میں الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا، جس کے بعد پیپلزپارٹی نے با ظابطہ طور پر آپ کو 6 ستمبر 2008 کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر زرداری نے استعفی تو دور کی بات پیپلز پارٹی کا سربراہ بھی رہا۔ بالآخر عدالت عالیہ لاہور نے زرداری کو حکم دیا کہ صدر رہتے ہوئے وہ سیاسی عہدہ چھوڑ دے۔[6] اور اب پوری پاتستانی عوام مھنگای کی آگ مین بری طرح پس رہی ہے اور ذرداری صاحب کی حکومت مین کوی بھی غريب عوام پر رحم کرنے والا موجود نہین·

الزامات


ان پر مالی بدعنوانی کے بےشمار الزامات آئے۔ رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے "Mr. 10%" کا عوامی اور اخباری خطاب پایا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے دور میں لمبی جیل کاٹی۔ پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں 2007ء، 2008ء، میں آپ کے خلاف تمام بدعنوانی کے مقدمات ختم کر دیے گئے۔ چودھری اعتزاز احسن جیسی مقتدر شخصیات نے ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو درست کہا ہے[7] (بعد میں چودھری نے تردید بھی جاری کی)۔ بینظیر کے 2007ء قتل کے بعد جلاوطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئے، اور پیپلزپارٹی کا بینظیر کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ شریک قائد کا عہدہ سنبھالا۔ 2007 الیکشن کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو پس منظر سے چلا رہے ہیں۔ 2008ء میں مختلف موقعوں پر پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے نواز شریف سے کھلے عام تحریری معاہدہ کرنے کے چند روز بعد مُکر جانے کے طریقہ کو یہ کہہ کر صحیح طرز عمل گردانا کہ "معاہدے حدیث نہیں ہوتے۔"[8][9]

صدارت سنبھالنے کے بعد بھی زرداری پر طلبِ رشوت کے الزامات اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔[10]

برطانوی اخبار کے مطابق زرداری کے وکلاء نے لندن کی عدالت میں جواب داخل کرایا تھا کہ زرداری کے معالجوں کے مطابق وہ ذہنی مریض ہیں، اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔[11]

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ افغان نژاد ظالمے خالیزاد کے زرداری سےروابط پر امریکی افسروں نے خالیزاد کی پیشی کی۔ زرداری نے امریکی حکام کو بتایا کہ خالیزاد انھیں مشورے اور مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔[12] آصف علی زرداری نے صدر بنتے ہی اپنے اثر رسوخ استعمال کرنا شروع کر دیا اور اپنے اوپر قائم تمام مقدمات رفتہ رفتہ ختم کرواتے چلے گئے، ان کے مقدمات ختم کروانے میں سابق چیف جسٹس عبدا لحمید ڈوگر کا بڑا ہاتھ تھا شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کہ ان کی حتی المکان کوشش رہی کے افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر نہ بحال ہوں۔

جنوری 2010ء میں قومی احتساب دفتر نے پس پردہ زرداری کے لیے کام کرنے والے ناصر خان کی اسلام آباد میں 2460 کنال زمین کو سرکاری سپردگی میں لینے کا حکم دیا

ذہنی استطاعت


بینظیر کی چوتھی برسی پر صدر پاکستان کی کرسی سنبھالے زرداری نے اپنی مرحوم زوجہ کے شہر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے منصف اعظم افتخار چودھری سے احمقانہ سوال کرتے ہوئے کہا:[14]

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا بنا؟ اسی بارے میں 'میں بھی پوچھتا ہوں چوہدری افتخار جج صاحب سے کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟'
— صدر پاکستان، آصف علی زرداری، دسمبر 2011ء







--

میرا نیا بلاگ - اپنی رائے کا اظہار کیجئے



http://shoaibtanoli.wordpress.com/


Regards

 

M Shoaib TaNoLi
Karachi Pakistan

Email@ shoaib.tanoli@gmail.com
Cell # +92-300-2591223

Facebook :https://www.facebook.com/mtanoli

SKYPE:        shoaib.tanoli2


 پاکستان زندہ باد   ۔ پاکستان پائندہ باد
Long Live Pakistan


Heaven on Earth
Pakistan is one of the biggest blessings of Allah for any Pakistani. Whatever we have today it's all because of Pakistan, otherwise, we would have nothing. Please be sincere to Pakistan.
Pakistan Zindabad!

ہم پاکستان ایک وطن ایک قوم
Dear Readers: My mails are my personal choice. The purpose of these mails is to establish contact with you, make you aware of different cultures ,disseminate knowledge and information. If these (mails) sound you    unpleasant, please intimate .
IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL

PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE

E Mail: shoaib.tanoli@gmail.com


--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups

No comments:

Post a Comment