ہم ملک ریاض کے احسان مند ہیں
پاکستان میں ایک نہیں بلامبالغہ ہزاروں ملک ریاض ہوں گے، ہمارے جاننے والوں میں بھی کئی ملک ریاض ہیں، ایک عزیز دوست ملک ریاض ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے اکائونٹ سیکشن میں تھے جب ہم ریڈیو کے لیے لکھا کرتے تھے تو اپنا چیک وصول کرنے کے لیے ان سے ہی ٹیلی فون پر رابطہ کرتے تھے اور ان کا ایک آدمی ہمارا چیک ہمارے حوالے کر جاتا تھا لیکن اب بحریہ ٹائون کے ملک ریاض نے ملک میں ایسا دھماکا کیا ہے کہ سارے ملک ریاض گوشہ ٔ گمنامی میں چلے گئے ہیں اور وطن عزیز میں صرف ایک ملک ریاض کا نام گونج رہا ہے اور وہ ہے بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کا نام جنہیں ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز، تجزیہ نگار اور کالم نویس بادشاہ گر کا نام بھی دے رہے ہیں۔ وہ بظاہر حکومت میں نہیں ہیں لیکن حکومت ان کی ہاتھ میں بنی ہوئی ہے ان کا بظاہر سیاست سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن بیشتر سیاسی جماعتوں میں ان کا اثر و رسوخ موجود ہے، وہ جہاں صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے قریب ترین دوستوں میں شمار کیے جاتے ہیں وہیں وہ میاں نواز شریف کی گڈ بک میں بھی ہیں۔ فوج کو ملک کا اصل حکمران طبقہ تصور کیا جاتا ہے اور فوج کے بیشتر ریٹائرڈ جرنیل ان کے پے رول پر ہیں۔ صرف جرنیل ہی نہیں فوج کے ہر کیڈر کے ریٹائرڈ افسر ان کی ملازمت میں ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پوری پارلیمنٹ مل کر بھی ان کے خلاف کوئی قانون منظور نہیں کرسکتی۔ یہ کمال ملک ریاض کی دولت کا ہے جس نے ملک صاحب کی ذہانت کے ساتھ مل کر وطن عزیز کے تمام مقتدر طبقوں کو اپنا یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ دولت انہوں نے کیسے حاصل کی ہے اور ایک مفلس آدمی جس کے دونوں ہاتھ خالی تھے، دیکھتے دیکھتے دولت کے انبار پر کیسے جا بیٹھا ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے جسے جاننے والے جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ملک صاحب نے سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے اپنی ہائوسنگ اسکیم کی بنیاد رکھی اور اس کے ذریعے اربوں، کھربوں کی دولت کمائی ہے۔ انہوں نے لوگوں کی اراضی پر بھی قبضہ کیا ہے اور وہ بیچارے ابھی تک عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ برادر محترم عبدالقادر حسن نے لکھا ہے کہ ملک ریاض ان کے ڈیڑھ لاکھ کے مقروض ہیں کہ یہ ڈیڑھ لاکھ کئی برس سے بحریہ ٹائون کی اسکیم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم ملک ریاض کے ممنونِ احسان ہیں اگر ملک ریاض ہم پر احسان نہ کرتے تو ہم کبھی دس مرلے کے پلاٹ کے مالک نہ ہوتے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ملک صاحب نے بحریہ ٹائون میں ہمیں دس مرلے کا پلاٹ دے کر اپنا احسان مند کرلیا ہے، بلاشبہ انہوں نے بحریہ ٹائون میں ہمارے ہم پیشہ دوستوں کو پلاٹ کیا، مکانات بھی بناکر دیئے ہیں اور ان کے بہت سے نخرے برداشت کیے ہیں لیکن ہم تین میں نہ تیرہ میں، کریلا اور نیم چڑھا ہم لکھتے بھی ایک ایسے اخبار میں ہیں جس کا مقتدر حلقوں میں گزر ہی نہیں ہوتا، پھر ہمیں یہ پلاٹ کیسے ملا، آیئے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں، ہوا یوں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے صحافیوں کو آباد کرنے کے لیے ایک ہائوسنگ اسکیم تیار کی تھی اور اسے میڈیا ٹائون کا نام دیا تھا۔ میڈیا ٹائون کی اراضی بحریہ ٹائون سے متصل حکومت پنجاب کی عملداری میں تھی۔ ابھی اس اسکیم کا افتتاح بھی نہیں ہوپایا تھا کہ ایک دن معلوم ہوا کہ ملک ریاض نے راتوں رات اس اراضی پر قبضہ کرلیا ہے اور بحریہ ٹائون کے بلڈوزر زمین ہموار کرنے کے لیے علاقے میں پہنچ گئے ہیں، اس حرکت پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے اخبار نویس بری طرح پریشان اور برہم ہوگئے۔ یہ گویا شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف تھا۔ انہوں نے فوراً وزیراعلیٰ پنجاب سے رجوع کیا۔ وزیراعلیٰ نے راولپنڈی انتظامیہ کو قبضہ چھڑانے کے لیے فوری کارروائی کی ہدایت کی۔ راولپنڈی اسلام آباد جرنلٹس ایسوسی ایشن کے عہدیدار انتظامیہ کے سر پر سوار ہوگئے کہ وزیراعلیٰ کے حکم پر بلاتاخیر عملدرآمد کیا جائے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ خود چودھری پرویز الٰہی نے ملک ریاض سے رابطہ کرکے انہیں میڈیا والوں کے ساتھ ہاتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دیا۔ ملک صاحب کو بھی اخباری برادری پر رحم آگیا اور انہوں نے قبضہ واگزار کردیا البتہ شرط یہ رکھی کہ وزیراعلیٰ جب اس ہائوسنگ اسکیم کا افتتاح کریں تو انہیں تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلایا جائے۔ واقعی ملک صاحب اس ''اعزاز'' کے مستحق بھی تھے وہ اگر نہ چاہتے تویہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکتی تھی۔ چنانچہ جب وزیراعلیٰ اسکیم کا افتتاح کرنے تشریف لائے تو ملک صاحب بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے تقریب میں موجود تھے اور ہر شخص ان کی دریا دلی اور سیر چشمی پر رطب اللسان تھا۔ اس اسکیم میں ہمیں بھی دس مرلے کا پلاٹ ملا تھا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سراسر ملک صاحب کی عنایت اور ان کا احسان ہے، وہ ہمیں نہیں جانتے ہم کیا وہ بے شمار اخبار نویسوں کو نہیں جانتے لیکن اس اسکیم میں سب ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہورہے ہیں۔ اب اس میں تعجب کیا کہ چیف جسٹس کا بیٹا بھی ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والوں میں شامل ہے۔ وہ اپنی اس عنایت سے محترم چیف جسٹس کو ممنونِ احسان کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے احسان مند ہونے کے بجائے اپنے بیٹے کی گردن ناپ لی اور ملک صاحب کو بھی دھرلیا ہے۔ لیکن ہمیں تو فکر میمو گیٹ اسکینڈل کی ہے جس کا کچا چٹھا سامنے آگیا ہے۔ ملک ریاض نے گرد ایک ایسے موقع پر اڑائی ہے جب میمو کمیشن کی تحقیقات سامنے آئی ہیں جس کا ملک کی سلامتی سے گہرا تعلق ہے۔
یہ ٹائمنگ بے موقع نہیں۔داد دیجیے ملک ریاض کو بھی اور اُن کے دوستوں کو بھی
--
میرا نیا بلاگ - اپنی رائے کا اظہار کیجئے
http://shoaibtanoli.wordpress.com/
Regards
M Shoaib TaNoLi
Karachi Pakistan
Email@ shoaib.tanoli@gmail.com
Cell # +92-300-2591223
Facebook :https://www.facebook.com/mtanoli
SKYPE: shoaib.tanoli2
پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
Long Live Pakistan
Pakistan Zindabad!
Dear Readers: My mails are my personal choice. The purpose of these mails is to establish contact with you, make you aware of different cultures ,disseminate knowledge and information. If these (mails) sound you unpleasant, please intimate .
IF YOU ARE NOT INTERESTED IN MY MAIL
PLEASE REPLY THIS E_,MAIL WITH THE SUBJECT.. UNSUBSCRIBE
E Mail: shoaib.tanoli@gmail.com
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
No comments:
Post a Comment